یہ پیڈز وارڈ میں ہمارا پہلا دن تھا 50 کے قریب بچے فقط نیپیوں میں ملبوس تھے۔ انہوں نے اب تک زندگی میں رونے کے سوا کچھ نہیں سیکھا تھا۔ ہمارا جی چاہا کہ ماسک اتار کر انکو منہ چڑائیں پر خیر ساتھ چند حسیناؤں کی موجودگی کو خاطر میں لاتے ہوئے ہم نے دامن تہذیب تھامے رہنے کو ترجیح دی
ہماری ذاتی دلچسپی زچہ میں تھی پر کاتب تقدیر نے ہمارے لئے بچہ وارڈ لکھ چھوڑا تھا اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ آپ ہمیں ٹھرکی ٹائپ سمجھ لیں جو کہ ہم تھوڑے سے ہیں پر آپ نے سمجھنا نہیں ہے۔
گائنی والیاں جانے کہاں سے اتنے بچے نکال نکال کر ہماری بچہ فیکٹری میرا مطلب ہے ہماری نرسری بھیجتی رہتی ہیں یہ سب بچے ہی دکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں اور ان کی پہچان کے لئے ان کو ٹھپہ لگانا پڑتا ہے کہ یہ فلاں کا بچہ ہے۔ ہم یہ دیکھ کہ حیران رہ گئے کہ یہاں کچھ بچوں کو نیلی روشنی لگائی
گئی تھی، ایسی ہی نیلی روشنی ہم نے بڑے دفاتر میں کیڑے مکوڑے مارنے کے لئے استعمال ہوتے دیکھی تھی اس غیر انسانی سلوک پر ایک بار تو ہمیں شدید غصہ آیا پر استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ جانڈس زدہ بچوں کو لگائی جاتی ہے جس سے ہماری تشفی ہوئی۔
یہ معلومات بروقت ملنے پر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا ورنہ ہم اس غیر انسانی سلوک کے خلاف چند قریبی دوستوں کے ہمراہ ایم ایس کے دفتر کے باہر دھرنا دینے کا فل پلان بنا چکے تھے اور یوں ہم بڑی شرمندگی سے بچ گئے
نرسری میں کسی کو بھی ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوتی ضرورت پڑنے پر لاؤڈ سپیکر پر آپکا نام پکارا جاتا ہے اور آپ کو بلا لیا جاتا ہے۔ ہم اس اعلی پائے کے ساؤنڈ سسٹم پر کسی روز پورے وارڈ کو نصرت کے گانے سنوائیں گے پر وہ دن وارڈ میں ہمارا آخری دن ثابت ہو سکتا ہے مگر ہم نے بھی سوچ لیا ہے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ ہمارا عزم بلند ہے لگن سچی ہے آنکھوں میں چمک ہے تو ہم ایسا کیونکر نہیں کر سکتے۔
عید روسٹر سے پھٹا مارنے پر ہماری ایکسپلینیشن کال کی گئی ۔ ایک پی جی آر نے جھوٹ وھوٹ بھی بولا جانے اس کی ہم سے کیا دشمنی تھی ہمیں تو ٹھیک سے اس کا نام بھی نہیں آتا تھا۔ خیر ہم ایچ او ڈی سے جا کر ملے وہ بہت بولے اور ہم کچھ نہیں بولے۔
ابھی ہماری جاں خلاصی نہیں ہوئی پر ہم پر یہ راز کھلا کہ ایکسپلینیشن پریسی (precis writing) کی ہی قسم ہے اور اس میں ایکسپلینیشن نہیں دینی ہوتی معذرت کرنی ہوتی ہے۔
ہم نرسری میں نیلے پیلے بچوں کی بھول بھلیوں میں الجھے تھے اور ادھر ہماری اپنی محبوب چائے سائینوز ہو رہی تھی اور ہمارے پاس وقت ہی نہیں تھا قریب سات بجے ہماری کولیگ نے چائے کو ڈیڈ ڈیکلیر کر کہ ٹوکری برد کر دیا زندگی میں پہلی بار ہمیں چائے کہ یوں رائیگاں جانے پہ دکھ نہیں ہوا تھا
سرکاری ہسپتال میں آپکا واسطہ کھٹمل سے نہ پڑے یہ ممکن نہیں ایک روز یوں ہوا ایک کھٹمل صراط مستقیم سے بھٹک کر ہماری پتلون میں داخل ہو گیا اس کے ناپاک عزائم کو ہم نے بھانپ لیا اور گھٹنے کی سرحد پار کرنے سے پہلے دبوچ لیا کھٹمل بھی واپسی کی سب کشتیاں جلا کہ نکلا تھا اس نے جوابی وار
کیا اس کے وار کے نتیجے میں ہمارے جسم پر ایک چھوٹا سا سپیڈ بریکر بن گیا ہم نے اس گستاخی کی سزا دی اور کھٹمل کو راہ عدم پہ روانہ کر دیا کھٹملوں کی فوج سے ہماری ففتھ جنریشن وار ابھی جاری ہے ہمیں یقین ہے ایک دن فتح ضرور ہماری ہوگی
ایک ماہ کے بعد بدن پر دو ماہ کی تھکن اوڑھے ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم کچھ نہیں سیکھیں گے۔شروع میں لگا تھا کہ ہمارا کام ڈاکٹر والا کم اور نرس والا زیادہ ہے ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں تھا پر ہم سے تو ٹھیک سے بچوں کے سیمپل بھی نہیں نکل رہے تھے ہمارا مڈ ہاؤس جاب کرائسس شروع ہو چکا تھا۔
میں روزانہ بیگ میں ایک لٹریچر کی کتاب اور فون میں دو پیڈز کی کتابیں لیکر جاتا اور اسی طرح واپس لے آتا۔مگر سب سے زیادہ ہم نے کتاب موت کا استعمال کیا۔ اس میں موت کی وجہ حرکت قلب بند ہو جانا تو درج تھی پر اس ماں کا دکھ کہیں درج نہیں تھا جس کا پانچواں بچہ بھی دام اجل میں آیا ہو
اور اس طرح کی بہت سی ان کہی داستانیں تھیں بہر حال یہاں آ کر مجھے لگا کہ بچوں کہ مرنے کا دکھ میڈیسن میں مرنے والے terminally ill مریضوں سے تھوڑا زیادہ ہی تھا اور یہ کہ مائیں عظیم ہوتی ہیں۔
You can follow @sojaoyar.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled: